اترے تھے اِس زمیں پہ عرشِ بریں کے تارے
امام خمینی کا یہ فرمان کہ وہ راہ جو ایک عارف یا فقیہ سو سال میں طے کرتا ہے، وہ ایک بسیجی جوان ایک رات میں طے کرتا ہے۔ امام کا یہ فرمان سمجھنا تھوڑا دشوار تھا مگر جب ہم مدافعان حرم کی طرف دیکھتے ہیں تو امام کا یہ فرمان بخوبی سمجھ میں آتا ہے۔ آج ایک ایسے ہی مدافع حرم کی شہادت کا روز ہے، جس کا حسن و جمال میں کوئی ثانی نہ تھا۔ امیر ترین اور حسین ترین لبنانی جوان جو چاہتا تو آرام سے عیش و عشرت کی زندگی بسر کرسکتا تھا مگر اُس نے دنیا کی تمام آسائشوں کو ٹھکرا کر مدافع حرم ہونا پسند کیا۔ شہید احمد مشلب کے ایک دوست نے اُن سے پوچھا کہ مال و دولت چھوڑ کر مدافع حرم ہونا۔۔ آخر کس چیز کی کمی تھی؟ شہید نے کہا: عشق کی کمی تھی مجھ میں، جس نے مجھے مدافع حرم حضرتِ زینب سلام علیہا بنایا۔
شہید احمد مشلب بہترین تعلیمی قابلیت کے مالک تھے، پورے لبنان میں ساتویں نمبر پر ٹیکنالوجی اور انفارمیٹک فیلڈ میں مقام حاصل کیا۔ شہدائے مدافعین حرم کی ماؤں میں سب سے کم عمر ماں مادرِ شہید احمد مشلب ہیں۔ شہید کی ماں کہتی ہیں کہ میرا بیٹا سالم اور اپنے وطن کا دفاع کرنے کے راستے میں قدم رکھنا چاہتا ہے، یہ بات میرے لیے بہت لذت بخش تھی۔ احمد عمل میں حضرت ابا عبداللہ ؑ اور مکتبِ عاشورہ کا پیروکار تھا، میں فخر کرتی ہوں کہ میں نے اِس راہ میں اپنا بیٹا قربان کیا، کیونکہ اسلام کو ایسے جوانوں کی ضرورت ہے، جو اِس کے دفاع میں قربان ہوں۔ اگر ہمارے جوان اس راہ میں فدا نہیں ہوں گے تو پھر کون ہوگا؟؟؟ ہمارا درود و سلام ہو اِن عظیم ماؤں پر جنہوں نے اپنے جوان بیٹے حسینؑ کے علی اکبر کے صدقے حرمِ ثانی زہراؑ پہ قربان کر دیئے۔
No comments:
Post a Comment
Please do not enter any spam link an the Comment box