Monday, June 21, 2021

چار سو یتیموں کی تربیت



بمناسبت یومِ شہادت:

آپ نے کتنے لوگوں کو دیکھا ہے جنہوں نے اونچی اونچی ڈگریاں حاصل کی ہو اور وہ اس کی پرواہ کئے بغیر محروم، غریب اور یتیم بچوں کی تعلیم و تربیت کےلئے ان کے درمیان رہنا پسند کرے؟ امریکہ کی مشہور یونیورسٹی سے

پلازما فیزکس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھنے والا شہید چمران لبنان میں یتیم خانہ میں اس طرح رہتے تھے۔


غادہ چمران کہتی ہیں:


میری مصطفیٰ کے ساتھ شادی ہوئی تو آپ نے اسی یتیم خانہ کے دو چھوٹے کمروں میں رہنا پسند کیا، اس یتیم خانہ میں چار سو یتیم بچے تھے اور مصطفیٰ کا معمول تھا کہ چار طبقوں میں رہنے والے بچوں کے پاس جاکر ان کی خبر لیتے تھے اور جب وہ واپس اپنے کمرے میں آتے تھے تو روتے  اور کہتے تھے:


«یتیم خانہ میں بچے ماں کی ممتا سے محروم ہو جاتے ہیں ان سے جدا ہو جاتے ہیں۔یہ یتیم خانہ بچوں کے لئے زندان ہے اور میرے لئے یہ بہت سخت ہے»


عید کے دن کچھ بچے اپنے گھر جاتے تھے لیکن مصطفیٰ سکول ہی میں رہتے تھے۔ میں ان سے پوچھتی تھی کہ آج عید کا دن ہے تو آپ میرے ساتھ میرے والدین کے گھر کیوں نہیں آئے؟


مصطفیٰ جواب دیتے تھے:


«آج عید ہے کچھ بچے اپنے والدین کے پاس گھر چلے گئے ہیں اور جن بچوں کا کوئی نہیں ہے وہ یہی سکول میں رہ گئے ہیں جو بچے گھر گئے ہیں جب وہ واپس آئیں گے تو وہ یہاں سکول میں رہنے والے دوستوں کو بتائیں گے کہ انہوں

نے گھر والوں کے ساتھ کیسے عید کی خوشیاں منائیں، میں یہاں اسکول میں اسلئے رکا تاکہ  کہ ان بچوں کے ساتھ کھیلوں، خوشیاں مناؤں اور کھانا کھاؤں تاکہ یہاں رہنے والے یہ یتیم بچے بھی اپنے دوستوں سے کچھ بیان کر سکیں»


غادہ چمران کہتی ہیں:میں نے مصطفی سے کہا:


اچھا ٹھیک ہے لیکن عید کی خوشی میں جو کھانا ماں نے آپ کے لئے بھیجا تھا آپ نے وہ کیوں نہیں کھایا اور آج بھی وہی اسکول کا معمولی کھانا کھایا؟

« مصطفیٰ نے جواب دیا سکول کے بچوں کا کھانا بھی معمولی تھا لہذا میں نے وہی کھانا کھایا»


میں نے ان سے کہا:


کہ اگر کمرے میں آکر میری ماں کا بھیجا ہوا کھانا کھاتے ، بچے اپکو کمرے میں دیکھ تو نہیں سکتے تھے اور ان کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ آپ نے کونسا کھانا کھایا۔


غادہ چمران بیان کرتی ہے


یہ سن کر چمران کی آنکھوں سے آنسوں نکلے اور کہا

«خدا تو دیکھ رہا تھا»


ان یتیم بچوں کو چمران اتنا پیار کرتے تھے کہ وہ آپ کے سر پر چڑھتے اور کھیلتے۔ مصطفیٰ چمران ان بچوں کے باپ تھے، دوست ، معلم اور کھیل کود کا ساتھی بھی تھے ان کی خوشی میں خوشی اور ان کے غم میں محزوں ہوتے تھے۔


جب آپ کی امریکی نژاد اہلیہ لبنان کی سختیوں سے تنگ آکر بچوں کے ساتھ واپس امریکہ چلی گئی تو ایک دن اس نے ڈاکٹر چمران کو فون کیا اور کہا

واپس امریکہ آجائیں۔ چمران نے ان سے کہا:


«میں کیوں لبنان کو چھوڑ کر امریکہ چلا جاؤں جب کہ میرے یہاں چار ہزار بچے ہیں میں ان کو تنہا نہیں چھوڑ سکتا»


لبنان کے پیروان علی علیہ السلام آج کیوں سربلند و سر فراز ہیں ؟HZB جیسی مشعل فروزان کو کون چلارہے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ چالیس سال  شہید چمران اور امام موسی صدر نے اپنی ہر چیز قربان کی اور نوجوانوں کی بھر پور انداز میں ، صداقت و خلوص کے ساتھ تربیت کی یہ تربیت لمبی لمبی تقریروں سے نہیں اپنے عمل سے ، خلوص بھرے کردار سے کی ذرا ایک مرتبہ پھر  اوپر کے جملوں پر غور کریں


«میں سکول میں اسی لئے رکا تاکہ ان بچوں کے ساتھ کھیلوں ، خوشیاں مناؤں۔۔۔ تاکہ یہاں رہنے والے یتیم بچے بھی اپنے دوستوں سے کچھ بیان کر سکیں»


«سکول کے بچوں کا کھانا معمولی تھا لہذا  میں نے وہی کھایا»


«خدا تو دیکھ رہا تھا»


آج کالج یونیورسٹی کو چھوڑیں ہماری بہت ساری دینی درسگاہوں اور مدارس میں بھی اساتذہ کا کھانا الگ ہوتا ہے اور طلاب کا الگ ہوتا ہے۔ طالب علم معمولی کھانا کھائے دینی لباس پہنے لیکن استاد شاگردوں کے سامنے رنگین دستر خوان پر کباب کے لقمے اور تلے ہوئے مرغوں سے شکم

بھرتے ہیں اور یہی وجہ ہے ہماری دینی درسگاہیں مقرر تو پیدا کرتی ہیں لیکن عالم با عمل نہیں، مجاور بناتے ہیں مجاہد نہیں، چاپولس تو پالتے ہیں آزاد خیال انسان نہیں، تعویز کا کاروبار کرنے والوں کی تربیت کرتے ہیں مگر خرافات کے ساتھ جنگ کرنے والوں کی نہیں۔


حوالہ جات:


۱:چمران به رویت همسر

۲:سه رویت از چمران

۳:مثالی لوگ

۴: شہید ڈاکٹر مصطفیٰ چمران

No comments:

Post a Comment

Please do not enter any spam link an the Comment box

حدیث طیرمشوی

  بسم الله الرحمن الرحیم حدیث طیرمشوی           این حدیث متواتر است این از اون روایات است ک ه اسلاف ما برای این حدیث خون ه ا دادن تا ...